کچھ سال پہلے کی بات ہے جب میں پڑھ کے فارغ ہوئی تو اپنے گھر کے پاس ہی ایک سکول میں جاب مل گئی‘ سکول بہت اچھا تھا‘ مجھے بچوںکو پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا‘ ہاں شوق بہت تھا… ہر کلاس کے دو سیکشن تھے ایک سیکشن کو سینئر استاد پڑھاتا تھا اور دوسرے سیکشن کو جونیئر‘ مجھے بھی ایک کلاس دیدی گئی‘ سینئر ٹیچر جونیئر کو گائیڈ کرتی تھیں‘ میرے ساتھ جو سینئر ٹیچر تھیں وہ مجھ سے ظاہر ہے دگنی عمر کی تھیں‘ تجربہ بھی تھا اور میں تو بالکل کوری تھی مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ میں برائی نہیں کررہی لیکن اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے میرے ساتھ کبھی شفقت نہیں برتی‘ کبھی مجھے نہیں بتایا کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ دنیاجہان کے کندذہن اور نکمے بچے میری کلاس میں بھیج دئیے جاتے‘ والدین بھی اپنے بچوں کو ان کی کلاس میں بھیجنا پسند کرتے تھے۔ خیر میں اپنے بچوں کو پوری لگن سے پڑھاتی تھی کیونکہ مجھے شوق تھا اور ہرسال کے امتحانات کے بعد میری کلاس کا رزلٹ ان کی کلاس سے ہمیشہ اچھا ہی آیا ہر سال سکول میں کوئز مقابلہ ہوتا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا اس لیے سینئر ٹیچر کی کلاس کے مقابلے میں میری کلاس ہار ہی جاتی تھی۔ میرے ساتھ جو سینئر ٹیچر تھیں وہ ایم اے اسلامیات تھیں اور میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی سٹوڈنٹ تھی ہر سال کوئز مقابلے میں اسلامیات سے متعلق عنوان ہی ہوتا تھا میں یہی سوچتی تھی یااللہ! میں کروں تو کیا کروں…؟؟؟ خیر میری جاب کو تیسرا سال تھا۔ تیسرا کوئز مقابلہ بھی تھا جب مقابلے کی تاریخ کا اعلان ہوا تو میری سینئر کولیگ جو تھیں میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں تمہاری کلاس کیسے جیتے گی میرا تو اسلامیات مضمون ہے‘ میرا تو سبجیکٹ ہے اس سال بھی میری کلاس ہی جیتے گی وہ کہہ کر چلی گئیں‘ میرے دل کو ان کا غرور دیکھ کر زبردست ٹھیس پہنچی ان کے یہ الفاظ آج تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں‘ میری آنکھوں میں دکھ کے مارے آنسو آگئے‘ تب میں نے دل میں اللہ سے دعا مانگی اے اللہ! دلوں کا حال تو ہی جانتا ہےتیرے قریب زیادہ کون ہے‘ اس دفعہ اس عورت کا غرور توڑ دے اور میرے بچوں کو فتح نصیب کر‘ خیر! پھر میں نے کلاس کے ذہین طلباء میں سے چند کو منتخب کیا اور انہیں سوالنامہ تیاری کیلئے دیدیا‘ موضوع ہجرت مدینہ تھا۔
میں نے اپنی کلاس میں بچوں کو جو مقابلے میں شریک تھے اور جو شریک نہیں تھے سب کو ہجرت کا واقعہ ایک دلچسپ کہانی کی طرح سنایا۔ مجھے علم ہے بچے سبق تو بھول جاتے ہیں لیکن کہانیاں نہیں بھولتے۔ سنانے سے پہلے میں نے اللہ سے دعا مانگی اے اللہ! میرا علم ناقص ہے‘ بچوں کو ایک اچھی بات اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ سنانے جارہی ہوں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو معاف کردینا۔ پھر میں نے بچوں کو سنایا کیسے کفارمکہ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو ستایا اور کیسے ہمارے پیارے نبی ﷺ اور ان جانثار ساتھیوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی‘ معرکہ غزوہ بدر کیسے ہوا اور کیسے اللہ نے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کی مدد کی۔مقابلہ منعقد ہونے تک میں ایک آیت مبارکہ ہر نماز کے بعد ایک تسبیح پڑھتی رہی نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ (الصف13) بہت زبردست آیت ہے‘ ساتھ ساتھ میں دعامانگتی رہی اللہ میرے بچوں کو فتح نصیب کر۔ جس دن مقابلہ تھا پرنسپل نے دونوں کلاسوں کے بچوں کو اپنے کمرے میں بلایا۔ کلاس ٹیچرز اور دیگر بچوں کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی‘ بچے پرنسپل کے کمرے میں چلے گئے میں اوپر اپنی کلاس میں باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ بیٹھی تھی لیکن مجھے اپنے اللہ پر بھروسہ تھا اپنی دعا پر بھروسہ تھا‘ یقین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بچے واپس آئے۔ وہ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے‘ میں ان کے قدموں کی چاپ سن رہی تھی۔ جیسے جیسے چاپ قریب آرہی تھی مجھے لگ رہا تھا میرا دل کہہ رہا تھا میرے بچے جیت کر آئے ہیں اور جب وہ میرے سامنے دروازے سے داخل ہوئے میں نے ان کے چہرے دیکھے‘ یقین کریں! مجھے ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر کتنا اچھا لگا‘ ایسے لگا جیسے میں سرخرو ہوئی‘ بچے خوشی سے چلا رہے تھے‘ ٹیچر ہم جیت گئے‘ ہم جیت گئے‘ سینئر ٹیچر کی کلاس کے بچوں کو تو ایک بھی سوال کا جواب نہیں آیا اور ہم سے پرنسپل نے جو سوالات کیے وہ آپ کے دئیے ہوئے سوالنامے میں نہیں تھے بلکہ اس پیاری سی کہانی (واقعہ) میں سے تھے جو آپ نے ہمیں اس دن کلاس میںسنایا تھا۔ مجھے اس وقت اور بھی زیادہ خوشی ہوئی۔ میں بتا نہیں سکتی میرے بیان سے باہر ہے۔ مجھے کس قدر مسرت ہوئی تھی‘ میں نے ایک چھوٹی سی کوشش کی اور اللہ نے مجھے کامیابی عطا کی۔ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس آیت کو پڑھیں تو یقیناً اللہ کامیابی عطا کرتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں